حضرت شیخ جلال الدین پانی پتی
رحمتہ اللہ علیہ
آپ کا اسم گرامی محمد بن محمود رحمتہ اللہ علیہ تھا لیکن پیرو مرشد کی طرف سے جلال الدین کا خطاب ملا تھا۔آپ کا سلسلہ نسب چند واسطوں سے حضرت عثمان غنی ؓ سے جا ملتا ہے۔آپ بڑے صاحب کرامت بزرگ تھے ۔شریعت ، طریقت ، حقیقت اور معرفت کے علوم میں اپنا ثانی نہ رکھتے تھے۔کھاتے پیتے گھرانے میں پیدا ہوئے تھے بے دریغ پیسہ خرچ کرتے تھے۔
حضرت شیخ شرف الدین بوعلی قلندر رحمتہ اللہ علیہ آپ رحمتہ اللہ علیہ کو بہت عزیز رکھتے تھے۔ بچپن ہی میں وہ آپ رحمتہ اللہ علیہ کو دیکھنے کے لئے روزانہ آپ رحمتہ اللہ علیہ کے گھر آیا کرتے تھے۔ آپ رحمتہ اللہ علیہ کے یتیم ہونے کے بعد آپ رحمتہ اللہ علیہ کی پرورش آپ رحمتہ اللہ علیہ کے چچا نے اپنے ذمے لےلی۔ ایک دفعہ حضرت بوعلی قلندر رحمتہ اللہ علیہ ایک عام گزرگاہ پر رونق افروز تھے کہ آپ رحمتہ اللہ علیہ گھوڑے پر سوار وہاں سے گزرے۔ حضرت بوعلی قلندر رحمتہ اللہ علیہ نے آپ رحمتہ اللہ علیہ کو دیکھ کر فرمایا کہ ایسا خوش قسمت گھوڑا اور کیسا خوش قسمت سوار ہے۔ یہ سنتے ہی آپ رحمتہ اللہ علیہ پر وجد کی کیفیت طاری ہوگئی۔ گریبان چاک کیا اور جنگل کی راہ لی۔چالیس سال آپ رحمتہ اللہ علیہ نے اسی طرح سفر میں گزار دئیے۔ بہت سے درویشوں سے ملے اور انکے فیوض سے مستفید ہوئے۔ آپ رحمتہ اللہ علیہ نے دو حج بھی کیے۔
جب آپ رحمتہ اللہ علیہ سیروسیاحت سے واپس آئے تو حضرت بوعلی قلندر رحمتہ اللہ علیہ سے بیعت ہونا چاہتے تھے مگر بو علی قلندر رحمتہ اللہ علیہ فرماتے تھے کہ جلدی نہ کرو ٹھہرو تمہارے پیر آنے والے ہیں۔ ایک دن حضرت شمس الدین ترک رحمتہ اللہ علیہ اپنے حجرے کے دروازے پر رونق افروز تھے۔ آپ رحمتہ اللہ علیہ لباس فاخرہ پہنے آپ رحمتہ اللہ علیہ کے سامنے سے گزرے حضرت شمس الدین ترک رحمتہ اللہ علیہ نے فرمایا اپنی نعمت اس لڑکے کی پیشانی پر تاباں دیکھتا ہوں۔یونہی آپ کی نظر حضرت شمس الدین ترک رحمتہ اللہ علیہ پر پڑی فوراً بے اختیار ہو کر آپ کے قدموں میں گر پڑے۔ حضرت شمس الدین ترک رحمتہ اللہ علیہ آپ کا سر اٹھایا اور کلاہ چرمی جو اس وقت آپ پہنے ہوئے تھے اتار کر اپنے ہاتھ سے آپ رحمتہ اللہ علیہ کے سر پر رکھی اور فرمایا۔ میں نے تجھ کو یہ بھی دیا وہ بھی دیا۔یہ کہہ کر آپ نے اسی وقت آپ کو اپنا مرید کر لیا۔ حضرت شمس الدین ترک رحمتہ اللہ علیہ نے عمر ِ آخر میں آپ کو خرقہ خلافت سے نوازا اور اپنا جانشین بنایا۔
ایک روزحضرت جلال الدین کبیرالاولیاء رحمتہ اللہ علیہ کوبنور کشف حضرت مخدوم جہانیاں جہاں گشت رحمتہ اللہ علیہ کی بیماری کا علم ہوا ۔آپ بقوت روحانی ایک ساعت میں دہلی پہنچے۔ جب حضرت مخدوم جہانیاں جہاں گشت رحمتہ اللہ علیہ کو حالت نزاع میں پایا تو اپنی عمر کے دس سال انہیں دےدیئے اور پھرایک ساعت میں پانی پت واپس لوٹ آئے۔جب مخدوم جہانیاں جہاں گشت رحمتہ اللہ علیہ صحت یاب ہوئے تو سلطان فیروز الدین آپ رحمتہ اللہ علیہ کی خدمت میں مزاج پرسی کے لیے حاضر ہوا ۔ مخدوم جہانیاں جہاں گشت رحمتہ اللہ علیہ نے سلطان کو بتایا کہ مجھے حضرت جلال الدین کبیرالاولیاء رحمتہ اللہ علیہ نے اپنی زندگی کے دس سال دئیے ہیں ورنہ تو میرا وقت آپہنچا تھا۔ سلطان فیروزالدین نے جب یہ بات سنی تو اسے آپ رحمتہ اللہ علیہ کی زیارت کا شوق ہوا۔ چنانچہ وہ پانی پت آیا اور آپ رحمتہ اللہ علیہ کی زیارت سے مشرف ہوا۔
ایک مرتبہ حضرت جلال الدین کبیرالاولیاء رحمتہ اللہ علیہ ایک گاؤں سے گذرے تو دیکھا کہ لوگ اپنا سامان اٹھائے ہوئے جا رہے ہیں۔ حضرت جلال الدین کبیرالاولیاء رحمتہ اللہ علیہ نے وجہ پوچھی تو لوگوں نے بتایا کہ گاؤں میں ژالہ باری کی وجہ سے فصل خراب ہوگئی ہے لگان ادا کرنے سے قاصر ہیں حاکم سخت ہے۔ آپ رحمتہ اللہ علیہ نے فرمایا اس گاؤں کو ہمارے ہاتھ فروخت کردو اور اس کا نام جلال آباد رکھ دو تو تمہارا لگان بھی ادا ہوجائے گا اور تمہیں اچھی خاصی رقم بھی بچ جائے گی۔ وہ لوگ راضی ہوگئے۔
آپ رحمتہ اللہ علیہ نے ان لوگوں سے لوہا اور لکڑی منگوائی اور ان سے کہا کہ اس لکڑی کو جلاؤ اور اس میں لوہے کے ٹکڑے ڈال دو۔ حضرت جلال الدین کبیرالاولیاء رحمتہ اللہ علیہ نے لوگوں سے کہا کہ آپ لوگ گھر چلے جائیں اور صبح آکر اسے دیکھیں کہ کیا ہواہے چنانچہ وہ لوگ اپنے اپنے گھروں کو چلے گئے۔ آپ رحمتہ اللہ علیہ بھی اس رات اس گاؤں سے چلے گئے۔ صبح کو جب گاؤں والے وہاںواپس آئے تو وہ یہ دیکھ کر سخت حیرت میں مبتلا ہوئے کہ سارا لوہا سونے میں تبدیل ہوچکا تھا۔ انہوں نے لگان ادا کیا اور باقی روپیہ اپنے خرچ میں لائے۔ لوگوں نے پھر اس گاؤں کا نام جلال آباد رکھ دیا۔
ایک دن آپ رحمتہ اللہ علیہ دریا کے کنارے تشریف لے گئے وہاں ایک جوگی آنکھیں بند کیے بیٹھا تھا۔ آپ رحمتہ اللہ علیہ کے وہاں پہنچنے پر جوگی نے آنکھیں کھولیں اور آپ رحمتہ اللہ علیہ کو سنگ پارس دیا۔ آپ رحمتہ اللہ علیہ نے اس پتھر کو دریا میں پھینک دیا جوگی خفا ہوا۔ آپ رحمتہ اللہ علیہ نے جوگی سے فرمایا کہ دریا میں جاکر اپنا پتھر لے آئے لیکن اس کے علاوہ اور کوئی پتھر نہ لے۔ جب جوگی دریا میں گیا تو اس نے وہاں ہزاروں اس قسم کے پتھر پائے۔ اس نے اپنے پتھر کے علاوہ ایک اور پتھر اٹھایا اور باہرآیا۔ آپ رحمتہ اللہ علیہ نے اس سے فرمایا کہ وہ دوسرا پتھر کیوں چھپا کر لایا۔ اس نے دونوں پتھر آپ رحمتہ اللہ علیہ کے سامنے رکھ دئیے اور آپ رحمتہ اللہ علیہ کا مرید ہوا۔
ایک دن حضرت جلال الدین کبیرالاولیاء رحمتہ اللہ علیہ کہیں جارہے تھے کہ ایک ضعیف عورت سر پر پانی کا گھڑا رکھے جارہی تھی۔ اس کے پاؤں کانپ رہے تھے آپ رحمتہ اللہ علیہ نے پوچھا کیا آپ کا کوئی اور آدمی پانی نہیں لا سکتا کہنے لگی میں بے کس اور بے سہارا ہوں۔ حضرت نے پانی کا گھڑا اٹھایا اور اپنے کندھے پر رکھ کر چلنے لگے اور اس کے گھر پہنچے۔ گھڑا رکھ کر فرمایا آج کے بعد انشااللہ یہ گھڑا پانی سے بھرا رہے گا تمہیں پانی لانے کے لئے کہیں جانے کی ضرورت نہیں ہوگی۔ وہ ضعیف عورت اس گھڑے سے پانی استعمال کرتی رہی مگر پانی کبھی کم نہ ہوا۔
آپ رحمتہ اللہ علیہ صاحب کرامت بزرگ تھے۔ جب حضرت جمال الدین ہانسوی نےحضرت علاؤالدین صابر کلیری رحمتہ اللہ علیہ کی سند چاک کر دی اور فرما یا تمہارے دم مارنے کی تاب دہلی میں کہاں تم تو ایک دم مارتے ہی دہلی کو جلا کر خاک کر دو گے جواباً حضرت مخدوم علاؤالدین صابر کلیری رحمتہ اللہ علیہ نے حالت جلال میں فر ما یا کہ آپ نے میری سند خلافت چاک کی ہے میں نے آپ کا سلسلہ چاک کردیا۔ حضرت جمال الدین ہانسوی رحمتہ اللہ علیہ کاوہ سلسلہ ابھی تک بند تھا لیکن آپ رحمتہ اللہ علیہ کی دعا سے ان کا سلسلہ دوبارہ سے جاری ہوگیا۔
حضرت جلال الدین محمود کبیر الاولیاء رحمتہ اللہ علیہ وجد و سماع میں مشغول رہتے تھے۔ آپ رحمتہ اللہ علیہ کی دعا کبھی نامنظور نہ ہوتی تھی۔ آپ رحمتہ اللہ علیہ کی زبان مبارک سے جو بھی نکل جاتا پوراہوتا تھا۔ عمر کے آخری حصہ میں آپ رحمتہ اللہ علیہ کے اوپر استغراق کا یہ عالم تھا کہ نماز کے وقت آپ رحمتہ اللہ علیہ کے کان میں تین مرتبہ حق حق کہا جاتا پھر آپ رحمتہ اللہ علیہ ہوش میں آتے اور نماز ادا کرتے نماز سے فارغ ہوکر آپ رحمتہ اللہ علیہ دوبارہ پھر مراقبے میں چلے جاتے۔
آپ رحمتہ اللہ علیہ ۱۳ ربیع الاول ۷۶۵ہجری کو اس دارفانی سے رخصت ہوئے۔ آپ رحمتہ اللہ علیہ کا مزار شریف پانی پت میں زیارت گاہ خاص وعام ہے۔